حمام میں سب ننگے ھیں۔۔۔۔۔۔۔

پنجاب میں زمینوں پرقبضہ کروانے میں 53 بیوروکریٹس سمیت 117افسران ملوث
موجودہ چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک، دو سابق چیف سیکرٹریز، چار صوبائی سیکرٹریز، تین وفاقی سیکرٹریز سمیت متعدد افسران ملوث
موجودہ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر، امین وینس، حیدر اشرف، سہیل چوہدری، سہیل سکھیرا، بابر بخت قریشی سمیت پولیس کی اہم شخصیات ملوث
جواد رفیق ملک نے بطور کمشنر سرکاری زمین ہر قبضہ کروایا، اب وہ چیف سیکرٹری تعینات ہیں،تحقیقات میں انکشاف
افسران من پسند طریقے سے قبضے مافیاز کے خلاف ایکشن کررہے ہیں قبضے کروانے والے ہی ایکشن کمیٹی کے سربراہ بن گئے، تحقیقات
قبضہ مافیاز کو سپورٹ کرنے اور قبضے کروانے والے افسران کی فہرست سامنے آگئی۔
لاہورپنجاب:اربوں روپے کی سرکاری اور پرائیویٹ زمینوں پر قبضے کا معاملہ ،قبضہ کروانے میں مبینہ طورپر 53 بیوروکریٹس سمیت 117افسران وملازمین بلواسطہ یا بلاواسطہ طورپر ملوث ہونے کا انکشاف ہو اہے، قبضے کروانے والے بعض سینئر افسران اہم عہدوں پر فائض ، افسران ایک دوسرے کو سپورٹ کررہے ہیں ،جو ماضی میں انہیں قبضہ مافیاکو سپورٹ کرتے رہے آج وہ صوبےکے اعلیٰ آفیسر سمیت وفاقی اورصوبائی سیکرٹریزسمیت اہم عہدوں پر تعینات ہیں، ذرائع کے مطابق سابق 2 چیف سیکرٹریز، پرنسپل سیکرٹری ٹو سی ایم،تین سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو، چار ایڈیشنل چیف سیکرٹریز ،تین سابق کمشنرزلاہور،فیصل آباد،سرگودھا، گوجرانوالہ، ملتان، ڈی جی خان اور ساہیوال بھی مبینہ طورپر ملوث رہے، ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی جانب سے جو تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ لاہور، راولپنڈی، سرگودھا، شیخوپورہ،فیصل آباد،اوکاڑا، راجن پور، ساہیوال، پاکپتن، ملتان، فیصل آباد، قصور،گجرات، گوجرانوالہ، راولپنڈی سمیت 29اضلاع کے سابق ڈپٹی کمشنرزاور پولیس افسران بھی مبینہ طورپر قبضہ مافیا کو سپورٹ کرنے میں ملوث رہے ہیں، سابق افسران کی مبینہ ملی بھگت سے سرکاری زمینوں پر قبضے کروائے گئے ہیں، قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے رپورٹس مرتب کرتے ہوئے اعلیٰ حکام کو پیش کر دی ہے، ذرائع بتاتے ہیں کہ اسسٹنٹ کمشنرز،پٹواری، سب رجسٹرار ، رجسٹری محرر، ایس ایچ اوز،ڈی ایس پیز اورپولیس افسران بھی زمینوں پر قبضے کروانے میں ملوث رہے، سابق دورِ حکومت میں افسران اور ملازمین کی مبینہ ملی بھگت سے ان کی سرپرستی میں قبضے کروائے گئے، قبضے کروانے والے بعض سینئر افسران اہم عہدوں پر فائض ، افسران ایک دوسرے کو سپورٹ کررہے ہیں ،ذرائع کے مطابق بیوروکریٹس میں سابق ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ علی جان، سابق ڈپٹی کمشنر اوکاڑا سقرات امان رانا،سابق سینئر ممبر بورڈ آف ریونیوشوکت علی سمیت متعدد افسران پر الزامات سامنے آرہے ہیں، اسی طرح ذرائع بتاتے ہیں کہ 2015میں ڈپٹی کمشنر لاہور جو اس وقت سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے بہت قریبی افسر سمجھے جاتے تھے اور کھوکھر برادران سے اچھے روابط تھے ، اور کھوکھر برادران کی درخواست پر اسسٹنٹ کمشنراور دیگر متعلقہ افسران تعینات کئے گئے اور انہیں کی درخواست پر اس وقت کے کمشنر لاہور ڈویژن نے اجلاس کی صدارت کی تھی اور یہ کام فوری کرنے کے احکامات جاری کئے تھے، اور اس وقت کے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کی جانب سے ایک ہنگامی اجلاس بلاکر پٹواری کو فرد جاری کرنے کے احکاما ت جاری کئے گئے تھے، شیخوپورہ کے علاقے کرپال سنگھ میں 125کینال اراضی پر 25برس سے قبضہ تھا، جس میں ایک تحصیل دار، 9نائب تحصیلدار اور 3پٹواریوں پر قبضہ مافیا کی معاونت کرنے پر پرچہ درج کیا گیا، ان میں تحصیلدار مرزا حامد بیگ، نائب تحصیل دار میاں عبدالرشید، خواجہ احسن محمود ، اعطم خان، منیر احمد، میاں محمد امجد، بشیر احمد، حفیظ الرحمن اور اسلم ضیائی ، پٹواریوں میں بشیر احمد، رانا اعجاز، زاہد سعید اور دیگر شامل ہیں، اسی طرح اوکاڑا میں 206کنال سرکاری اراضی پر قبضہ کروایاگیا، لودھراں میں 384کنال 5مرلے سرکاری زمین پر قبضہ کروایا گیا تھا، گجرات میں مقبول احمد پٹواری، سجاد اسلم پٹواری، آصف شفیع، رضوان چوہدری اور سابق ڈپٹی کمشنر، اور سابق پولیس افسران کی مبینہ ملی بھگت سے غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹی اسکیم بنانے کےلئے زمین پر قبضہ کروایا، اور41کنال زمین پرائیویٹ سوسائٹی میں شامل کروائی ۔اسی طرح12فروری 2020کو فرد جاری کی گئی ، جس کی دستاویزنمبری 4748جاری ہوئی ۔4جولائی 2019کو ایک پرائیویٹ سوسائٹی کے متعلق رقبہ تعدادی 104کنال 13مرلہ کی بابت مفصل رپورٹ میں خسرہ نمبر 258شامل نہ تھا، البتہ ویلیوایشن ٹیبل میں یہ نمبر خسرہ گجرات سٹی ہاؤسنگ اسکیم میں شامل ہو چکا تھاان کو سابق ڈپٹی کمشنر گجرات جو کہ اتحادی جماعت کے سینئر عہدیدار کے کہنے پر تعینات تھے ان کو کھل کر سپورٹ کی اور جعل سازی میں جو کام کرڈالا اس کی اب سرکاری دستاویزات میں انکشافات بھی ہورہے ہیں، سرگودھا میں 1574کنال 12مرلہ زمین پر قبضہ ہوا، اور زمین خریداری کے بجائے محکمہ مال کے ریکارڈ میں زمین کا باہمی تبادلہ آبادی دیہہ کے ساتھ درج کیا اور متبادل رقبہ کا نہ تو انتقالات کروائےگئے اور نہ ہی کہیں سے یہ رقبہ دیا گیا ہے۔ یہاں بھی سابق ڈپٹی کمشنر سرگودھا اور اس وقت کے ڈی پی او کی جانب سے ان کو کھل کر سپورٹ کیا گیا اس وقت ذرائع بتاتے ہیں کہ ان کو سابق چیف سیکرٹری پنجاب اور وزیراعلیٰ آفس سے ان کو فون پر آگاہ کیا گیا تھا کہ یہ سرگودھا کی زمین کا معاملہ دیکھ کرحل کیا جائے، ذرائع بتاتے ہیں کہ سابق کمشنر لاہور جواد رفیق ملک جو کہ شہبازشریف کے انتہائی قریبی دوست اور آفیسر سمجھے جاتے تھے اس وقت سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی سربراہی میں ایک اجلاس ہوا تھااجلاس میں موجود ایک موجودہ ایم این اے جن کے خلاف نیب کا انتہائی اہم نیب کا کیس بھی چل رہا ہے اور اپوزیشن جماعت سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی موجود تھے ان کی جانب سے کمشنر جواد رفیق ملک کو اہم ٹاسک سونپا گیا تھا کہ قبضہ مافیا کے خلاف ایکشن کیاجارہا ہے جس میں ایک فہرست دی گئی تھی کہ ان افراد کو قبضہ مافیا کی فہرست سے نکال دیا جائے اور اس وقت ایل ڈی اے کے ساتھ ملکر سابق ڈی سی او اور کمشنر لاہور نے نئی فہرست بنائی تھی اور متعدد قبضہ مافیاکے خلاف ایکشن کرنے سے گریز کیا گیا تھا اور آج انہیں افراد سے متعلق کیسز اینٹی کرپشن پنجاب کی جانب سے بناکر ان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں،جواد رفیق ملک پر بطور کمشنر لاہور متعدد جگہوں پر قبضے کروانے کا الزام ہے،سابقہ دور میں متعدد اہم جگہوں سے متعلق بھی قبضہ مافیا کو سپورٹ کیا گیا تھا، ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ بعض افسران پر الزام ہے کہ یہ سابق دور میں اہم عہدوں پر تعینات رہے اورقبضہ مافیاز کوسیاسی اثرورسوخ کے باعث مبینہ طورپر سپورٹ کرتے رہے ہیں ان میں سابق سینئر پولیس افسران مشتاق سکھیرا، امین وینس، جواد محمود ڈوگر،سابقہ دور کے ڈی آئی جیز آپریشنز لاہور، بابر بخت قریشی، سہیل چوہدری، ذوالفقار حمید، اسد مظفر شاہ،شفیق گجر، متعدد ڈی پی اوز، ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز بھی شامل ہیں، ان میں سے متعدد اہم عہدوں پر تعینات ہیں جن سے متعلق رپورٹ میں اہم انکشافات کئے گئے ہیں، اسی طرح لاہور میں پٹواری افتخار احمد، سب رجسٹرار دفتر علامہ اقبال ٹائون اور سابق آر ایم این اے راجہ ندیم اور دیگر نے سٹیمپ ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رقبہ 22کنال 11مرلہ جعل سازی ، بدنیتی اور فراڈ سے جعلی سرنڈر ڈیڈ درج کروائی گئی، سرنڈر ڈیڈ مشترکہ وراثت کی منتقلی یا فروخت کے وقت تیار کی جاتی ہے جبکہ جب ڈیڈ درج کروانے کےلئے فرد رپٹ نکلوائی تو وہ جائیداد کے شراکت دار ہی نہ تھے۔26نومبر 2013کو رپٹ درج کروائی گئی تھی اس وقت متعلقہ افسران کے علم میں ہونے کے باوجود معاملات کو میرٹ اور شفافیت کے مطابق نہ دیکھا گیا بلکہ اس کے برعکس اقدامات کئے گئے ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں